GuidePedia

0
 


تم کو کیا ھوا کہ تم اللہ کی عظمت کے معتقد نھیں ھو اور پیدا کیا تم کو طرح طرح سے ۔  ارشاد ربانی ھے"ما لكم لا ترجون لله وقاراً. وقد خلقكم أطواراً" (نوح آيت13- 14) ترجمة: تم کو کیا ھوا کہ تم اللہ کی عظمت کے معتقد نھیں ھو اور پیدا کیا تم کو طرح طرح سے ۔

سائنسی حقیقت:

سب سے پہلے 1651ء میں جس نے معمولی لینس کی مدد سے مرغی کے جنین سے متعلق تحقیق کی وہ ھاروے (harvey) ھے اسی طرح اس نے ڈیر (dear) کا بھی دراسہ کیا  اور حمل کے پہلے مراحل کے معاینہ میں آنے والی دشواریوں کی وجہ سے اسنے یہ نتیجہ نکالا کہ جنین صرف رحم سے نکلنے والے مادوں سے عبارت ھے 1673ء میں گراف(graaf)نے رحم میں بننے والے چھوٹے چھوٹے ذرات کا انکشاف کیا جس کا نام اسکے نام سےگرافین فولیلیز (graafian follieles)رکھا گیا  اور اس نے حاملہ خرگوشوں کے رحم میں چھوٹے چھوٹے خانوں کا مشاھدہ کیا جس سے اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ جنین رحم سےنکلنے والے مادوں یا ذرات کا نام نھیں ھے بلکہ وہ انڈوں کی جگھوں سے پیدا ھوتے ھیں اور وہ چھوٹی چھوٹی تکوینات جن کا گراف نے مشاھدہ کیا وہ محض جنین کے پہلے خلیوں کے گروپس(blastocysts) میں چند سوراخ ھیں

 اور 1675ء میں مالپیجی (malpighi) نے مرغی کے انڈوں میں جنین کا معاینہ کیا جس کو اس نے یہ سمجھا کہ اس میں نر عناصر کی کوئی ضرورت نھیں اور اسنے یہ سمجھا کہ اسکے اندر ایک چھوٹی چیز ھوتی ھے جو بڑھتی رھتی ھے مختلف مراحل میں پیدا نھیں ھوتی

 اور مزید ترقی یافتہ خوروبیں کے ذریعہ 1677ء میں پہلی بار ھام (hamm) اور لیون ھاک (leeuwven hoek) نے انسانی مادہ منویہ کا انکشاف کیا ۔ لیکن وہ دونوں پیدائش کے سلسلے میں اسکے حقیقی کردار کو نہ سمجھ سکے انھوں نے بھی یہ سمجھا کہا سکے اندر ایک چھوٹا سا انسان ھوتا ھے جو رحم کےاندر تخلیق کے مراحل طے کئےبغیر بڑھتا رھتا ھے اور پروان چڑھتا رھتا ھے

اور 1759ء میں اولف(wolff) نے تکوین کے ابتدائی گروپس سے جنین کی ترقی کا نظریہ پیش کیا جسکے اندر مکمل جزء کی شکل نھیں اور تقریبا سنة 1775ء میں ابتدائی طور پر مکمل تخلیق کی فرضیت اور اسکو ماننے کے سلسلے میں ھونے والے مناقشہ ختم ھو گیا اور اس بات کو تسلیم کرلیا گیا کہ تخلیق کےمراحل ایک حقیقت ھیں اور کتوں پر اسپلانزی(spallanzani) کےتجربوں سے تخلیق کے عمل میں اجزاء منویہ کی اھمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ھے اس سے پہلے یہ سوچ عام تھی کہ منوی اجزاء چھوٹے چھوٹے  عجیب وغریب کائنات ھیں اس لئے ان کا نام منی کے جانور یا کیڑ ے (semsn animals) رکھا گیا ۔ اور مادہ منویہ کے انکشاف کے ڈیڑھ سو سال بعد تقریبا 1837ء میں ونبیئر(vonbaer) نے ایک کتّی کے مادہ منویہ جمع ھونے کے جگہ میں چھوٹے انڈے کا معاینہ کیا اور 1839ء میں شلیدن(schleiden) اور شوان (schwann) دونوں نے اس بات کا یقین کرلیا کہ انسانی جسم زندہ مفید اور اساسی پوینٹس اور اس کے نتائج  سے بنتا ھے  اسی لئے ان پوینٹس کا نام خلیے رکھا گیا اس کی وجہ سے مادہء منویہ اور چھوٹے انڈے کے ملنے سے بننے والے خلیے سے مختلف مراحل میں انسانی تخلیق کی حقیقت کو سمجھا گیا ۔

سبب اعجاز:

قرآن کریم کی آیت اس بات کی دلیل ھے کہ انسان اچانک پیدا نھیں ھوتا جیسا کہ ارسطو کے زمانے سے لیکر گذشتہ صدی تک یہ تصور رھا ھے ۔ بلکہ مختلف اجناس  اور مسلسل نسلوں کے باوجود وہ متحقق مراحل میں پیدا ھوتا ھے۔

   علم جنین کی تاریخ اس بات پر شاھد ھے کہ سائنسدان ایک زمانے تک انسان کی تخلیق کی کیفیت کے سلسلے میں بھٹکتے رھے جبکہ قرآن نے ساتویں صدی عیسوی میں اس کا اعلان کردیا تھا کہ انسان اچانک نھیں بنتا بلکہ جس طرح ایک متعین نقشہ سے بلڈنگ کی تعمیر عمل میں آتی ھے اس طرح انسان کی تخلیق ھوتی ھے اور کسی چیز کا اچانک ھونا طے شدہ مراحل کی تفسیر نھیں ھے بلکہ وہ اللہ کی حکمت وارادہ اور اس کی قدرت و وسیع علم اور اس کے عمدگی فن پر شاھد ھیں البتہ پلانتگ اور متعدد جنسوں اور مسلسل نسلوں مین مراحل کے تحقق اس عظیم پیدا کرنے والے کی وحدانیت کی دلیل ھے

إرسال تعليق

salafeka.blogspot.com

 
Top